عیدالفطر اسلام کا عظیم الشان تیوہار ہے اور یہ مسلمانوں کو اس کی جزا کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے۔ اس دن کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ خود میزبان ہیں اور اللہ کے وہ خوش نصیب بندے جنہوں نے اس مہینے کا ایماناً واحتساباً روزہ رکھا وہ اللہ کے مہمان ہیں۔ روایت میں آتا ہے کہ الصَّومُ لِیْ وَ اَنا اَجْزٰی بِہٖ کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا ۔ اورجب اللہ تبارک وتعالیٰ خود ہی اس کا اجر دیگا تو اس کی اہمیت کیا ہوگی۔ عید الفطر خوشی ومسرت کا دن ہے اس میں شرعی حدود میں رہ کر خوشی منانا جائز ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہؓ کے پاس دو بچیاں دف بجارہی تھیں حضرت ابو بکرؓ نے انہیں منع کیا تو آپﷺ نے فرمایا ابو بکر چھوڑ دو آج عید کا دن ہے۔ (بخاری ومسلم )اس سے یہ مطلب صاف واضح ہوتا ہے کہ شرعی حدود میں رہ کر عیدالفطر کے دن خوشی منانا جائز ودرست ہے بلکہ سنت ہے۔قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان لکل قوم عیداً وہذا عیدنا (الحدیث) آپ صلی اللہ نے فرمایا کہ ہر قوم کیلئے خوشی کا دن ہے اور یہ ہماری خوشی کا دن ہے۔ اس دن کے تعلق سے اور بھی بہت ساری روایت مروی ہیں۔ جس میں عمدہ سے عمدہ کپڑے پہننا(اگر استطاعت ہوتو)عطر لگانا، میٹھی چیز کھاناوغیرہ شامل ہے۔ جس سے اس دن کی اہمیت وافادیت واضح ہوتی ہے۔
عیدالفطر کی خوشی اس وقت دوبالا ہوجاتی ہے جب اپنے والدین، بھائی بہن ودیگر رشتہ دار واحباب کے ساتھ منائی جائے۔ لیکن بعض اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں جو بوجہ مجبوری اپنے رشتے دارواحباب سے دور رہ کر یہ خوشی کو مناتے ہیں اُن کے دلوں میں یہ کسک باقی رہتی ہے کہ ہم اپنے والدین ، بھائی بہن، بیوی بچوں سے دور رہ کر منارہے ہیں۔ بے چارے پردیسی اُس دن اپنے اہل وعیال کو خوب یاد کرتے ہیں اور ان کے بچے بھی اپنے والد کو ان کی بہنیں بھی اپنے بھائی کی ان کے والدین بھی اپنے لخت جگر کمی محسوس کرتے ہیں۔ ایسے ہی امت کا ایک طبقہ اپنے والدین سے محض علوم نبویہ کو حاصل کرنے کے لیے دور رہتا ہے۔ ان میں سے بعض تو اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں کیوں کہ مدارس اسلامیہ میں رمضان کی چھٹی ہوتی ہے۔ جس طرح انگریزی اسکولوں میں مئی جون کو چھٹیاں رہتی ہیں اسی طرح مدارس اسلامیہ میں 15شعبان سے 15شوال تک چھٹیاں رہتی ہیں۔ لیکن بعض ایسے بھی طالب علم ہوتے ہیں جن کے پاس اتنی استطاعت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے گھروں کو جاسکیں، اور کچھ کے پاس یہ مجبوری تو نہیں ہوتی لیکن وہ صرف اور صرف اپنے علوم کی تکمیل کے لیے مدارس میں پناہ گزین رہتے ہیں۔ اور اپنے والدین بھائی بہن سے دور رہ کر محض اللہ واس کے رسول ﷺ کے علوم کو سیکھنے کے لیے اس خوشی کو تج دیتے ہیں وہ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ پر مکمل عمل پیرا ہونے کی سعی کرتے ہیں۔اس سلسلے میں راقم نے جب مدارس اسلامیہ کے چند بچوں سے دریافت کیا کہ کون سی ایسی مجبوری ہے جس کی وجہ سے آپ رمضان المبارک میں یہاں قیام فرما ہیں اپنے والدین سے دور رہ کر اس عید کی خوشی میں بھی آپ یہاں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان میں سے بعض کا کہنا تھا کہ ہم بعد میں بھی تو اپنے اہل وعیال کے ساتھ عید کی خوشی بانٹ سکتے ہیں لیکن اگر یہاں سے گھر جائیں گے تو ہماری پڑھائی کا نقصان ہوگا۔۔۔ اور جس کی کمی پوری نہیں کرپاؤں گا اور ہمارا مقصد دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہے اگر اس کی بھر پور تیاری نہیں ہوپائی تو داخلے سے محروم رہ سکتا ہوں اور یہ میرے لیے بہت بڑی بدقسمتی کی بات ہوگی۔ واضح رہے کہ رمضان المبارک میں دارالعلوم میں بچے داخلے کے لیے جاتے ہیں اور نئے تعلیمی سال میں داخلے کی تیاریاں کرتے ہیں ۔ بعض شہر میں رہ کر ہی وہاں کی تیاری کرتے ہیں اور عید کے ہی دن شام کو دارالعلوم کے لیے رخت سفر باندھ لیتے ہیں۔راقم خوداپنے دورِ طالب علمی میں دارالعلوم میں رمضان المبارک کی پر رونق راتیں اور عید الفطر کا مقدس ترین دن گزار چکا ہے۔ رمضان کی بہاریں دیوبند میں لائق دید ہوتی ہیں جہاں ایک طرف حضرت الاستاذ سید مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم العالیہ کی مسجد چھتہ میں مجلس لگتی ہے، اور وہیں حضرت نماز تہجد میں پورا قرآن ختم کرتے ہیں تو وہیں دارالعلوم کی مسجد قدیم ، مسجد رشید نونہالان علوم نبویہ سے پر رہتی ہیں اور قال ا للہ وقال الرسول کی صداؤں سے گونجتی رہتی ہیں۔ دارالعلوم کا باوقار اور روحانیت سے معمور دارالحدیث بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے تو وہیں ’نو درہ ‘(یہ وہی جگہ ہے جس کی نشاندہی بانیان دارالعلوم دیوبند کو حضورﷺ کی طرف سے خواب میں کی گئی تھی) اپنے جاہ وجلال سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ نودرہ میں بچوں کا اژدہام قابل دید ہوتا ہے وہاں رمضان المبارک میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی ۔یہ جگہ رمضان کے دوسرے تیسرے دن ہی پر ہوجاتی ہے۔ 24گھنٹے مسلسل بچے وہاں دارالعلوم میں داخلے کی تیاریوں میں مصروف رہتے ہیں ایک پل کے لیے بھی نودرہ پورے رمضان ہی نہیں بلکہ پورے سال خالی نہیں رہتا ہے کوئی نہ کوئی بچہ وہاں پڑھتا ہی رہتا ہے۔ یہ نودرہ کی خصوصیت میں سے ایک خصوصیت ہے۔ ویسے پورے دارالعلوم میں بچے مسلسل پڑھتے رہتے ہیں لیکن جو اہمیت وہ نودرہ کو دیتے ہیں کوئی اور جگہ کو حاصل نہیں۔ بہرحال یہ تو ان بچوں کے تعلق سے تھا جو دین سیکھنے کی غرض سے اپنی عید کی خوشی اپنے اہل وعیال کے ساتھ نہیں بلکہ قرآن وسنت کے ساتھ مناتے ہیں اور کامیابی کے علم گاڑتے چلے جاتے ہیں۔ دوسری قسم ان بچوں کی ہے جو نادار ہوتے ہیں جنہیں اپنے گھر کی تکالیف کا احساس ہوتا ہے وہ رمضان المبارک میں کچھ کام وغیرہ کرکے اپنے سال بھر کا خرچ نکال لیتے ہیں جس سے ان کا گھر ان کے تئیں فکر مند نہیں رہتا ، بعضے تراویح پڑھا کر اپنا خرچ نکالتے ہیں ہیں بعض بچے عطر ، ٹوپی وغیرہ پورے رمضان فروخت کرتے ہیں جس سے ان کے آئندہ تعلیمی سال کا خرچ نکل جاتا ہے اور وہ اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے کے لیے یہ شغل کرلیتے ہیں۔ دونوں ہی قسم کے بچے لائق تحسین ومبارک باد ہیں دونوں کا مشن علوم نبویہ ہی کی ترویج واشاعت ہے ۔ ویسے مدارس اسلامیہ میں قوم کے صرف چار فیصد ہی بچے داخل ہوتے ہیں ان میں سے صرف 0.5فیصد بچے متوسط طبقے کے ہوتے ہیں جنہیں اپنے گھروں کی مالی حالت کی فکر نہیں رہتی اور 3.5فیصد ایسے بچے ہوتے ہیں جن کا گھر غربت وافلاس زدہ ہوتا ہے۔ قوم کو اس تئیں سوچنے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہی وہ بچے ہیں جو آگے چل کر دین اسلام کی خدمت کریں گے ان کے اوپر خرچ کرنے کے بہت سارے فضائل احادیث میں مروی ہیں ۔ یہی وہ بچے ہیں جو مشن صفہ کو زندہ کیے ہوئے ہیں۔ مسجد نبوی سے جو درس دیاگیا تھا وہی درس حاصل کرتے ہیں ۔۔۔ حضرت ابوہریرۃؓ کی طرح دنیا سے بے پرواہ ہوکر محض دین کی خاطر کبھی نودرہ میں قال اللہ وقال الرسول کرتے ہیں تو کبھی مسجدِ چھتہ ، مسجدِ قدیم مسجدِ رشید کے وسیع وعریض صحن میں اپنی علمی تشنگی کو بجھاتے نظر آتے ہیں۔ ان کے تعلق سے روایتوں میں آتا ہے کہ ان کے لیے سمندروں کی مچھلیاں تک دعاکرتی ہیں۔